تحریک منہاج القرآن

پس ماندہ مذہبی ذہن کے تیارکردہ فتنہ طاہریہ کی حقیقت

ہجرت، وحی اور نیت کا باہمی ربط

Posted by NaveedBCN پر مئی 1, 2007

ہجرت، وحی اور نیت کا باہمی ربط

حدیث کا مضمون ہجرت ہے، باب کا عنوان ہے بدء الوحی، اس کے درمیان ربط کے کئی گوشے ہیں ان میں سے ایک پہلو یہ ہے کہ ہجرت کا معنی کسی عمل یا جگہ کو چھوڑ دینا اور اس سے علیحدہ ہو جانا ہے۔ وحی کا معنی ہے کہ نبی کا اللہ کے ساتھ ایسا جڑ جانا کہ اللہ کے کلام کے ساتھ ان کا اتصال ہوجائے یعنی وحی، اللہ سے ایسے تعلق کی شکل میں پیدا ہوتی ہے جس کے نتیجے میں کلام الہٰی کا حصول و وصول ہوسکے۔ پس ترجمۃ الباب اور حدیث الباب میں ربط یہ بنا کہ جب کسی سے تعلق بنانا ہو تو کسی سے تعلق چھوڑنا پڑتا ہے، گویا دنیا سے تعلق جب تک نہیں توڑیں گے اس وقت تک رب سے تعلق جوڑا نہیں جاسکتا۔

اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ حدیث میں مذکورہ ’’انما الاعمال بالنیات‘‘ کے الفاظ میں نیت کا بھی ذکر ہے، اس ربط کا نیت کے ساتھ کیا تعلق ہے؟ نیت کے ساتھ ربط یہ ہے کہ کسی کو چھوڑ دینا تاکہ اس مالاء اعلیٰ کے ساتھ جڑ سکیں یہ اس وقت تک ناممکن ہے جب تک آپ کی نیت اللہ کے لئے خالص نہ ہوجائے، نیت میں خالصیت اور للہیت ہو تبھی انسان کو کچھ چھوڑنا نفع دیتا ہے اور کہیں جڑنا نفع دیتا ہے۔ اس لئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی شہری، گھریلو حتی کہ ازدواجی زندگی ترک کرکے غار حراء میں چلے جاتے اور طویل وقت اس تعلق سے ہجرت فرماکر خلوت میں یکسوئی کے ساتھ اس تعلق کو جوڑتے اور اس تعلق میں اخلاص اور للہیت اس کمال تک جاپہنچی کہ پھر پردے ہٹادیئے گئے اور اللہ نے اس حراء میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کلام کیا۔ یہ ہجرت، وحی اور اخلاص فی النیت کا باہمی تعلق و ربط ہے۔

لغت عربی میں وحی کے کئی معانی ہیں۔ ان معانی میں ایک معنی ’’تیزی سے خفیہ اشارہ کرنا‘‘ بھی ہے۔ امام بخاری نے صحیح البخاری کو ’’البدء الوحی‘‘ کے الفاظ سے شروع کرکے اس طرف اشارہ فرمایا کہ جب اللہ سے تعلق قائم ہوتا ہے تو بہت سی باتیں اشارات میں ہوتی ہیں چونکہ وحی کے معنی میں اشارہ ہے، ہر چیز کو ظاہر نہیں کیا جاتا چانچہ اولیائے کرام، عرفاء عظام اور صوفیاء کے ہاں کثرت سے اشارات پائے جاتے ہیں اور ان احباب کے یہ اشارات، انبیاء پر نازل ہونے والی وحی کے فیوضات میں سے ایک فیض ہوتا ہے اور یہ فیوضات نبوت میں سے ایک حصہ ہے۔ اس لئے صوفیاء کہتے ہیں کہ صوفیاء کی زبان اشارہ کی زبان ہوتی ہے۔ لہذا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد وحی بند ہوگئی اور اشارات، امت اور اہل اللہ کے لئے برقرار رہے۔ یہ وحی کے معنی اشارہ میں اشارہ ہے۔

اس طرح وحی کا ایک معنی کتابت بھی ہے اور اس سے مراد کتاب بھی ہے کیونکہ قرآن پاک وحی الہٰی ہے اس لئے اس بارے کہا گیا کہ ذلک الکتاب لاریب فیہ یہ وہ کتاب ہے جس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش ہی نہیں۔ وحی کا ایک معنی مکتوب (لکھا گیا) بھی ہے، مکتوب کا معنی خط ہے۔ پس اس معنی سے اشارہ یہ ملا کہ وحی اللہ اور نبی کے درمیان خط و کتابت بھی ہے۔ اس طرح وحی کا معنی رسالت، الہام اور القاء بھی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مذکورہ حدیث مبارکہ میں ارشاد فرمایا۔

’’اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے جس شخص نے کسی عورت سے نکاح کے لئے ہجرت کی، گھر چھوڑا اور روانہ ہوا تو اس کا مقصود نکاح ہی ہے‘‘ اس سے مراد یہ ہے کہ اس کو سوائے نکاح کے کوئی اور اجر نہیں ملے گا مزید ارشاد فرمایا ’’جس نے دنیا کے لئے ہجرت کی اس کو سوائے دنیا کے کوئی اور اجر آخرت میں نہ ملے گا‘‘ یعنی ہجرت تو دنیا کے حصول کے لئے کرے لیکن کہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے کی ہے تو اس کو اسی کا اجر ملے گا جس کی اس نے نیت کی۔ دنیا کے لئے ہجرت کرنے سے منع نہ کیا بلکہ یہ فرمایا کہ نیتوں میں اسے خلط ملط نہ کیا جائے، نیت میں اگر دنیا کے لئے ہجرت ہے تو اسی کا اجر ہوگا ہجرت الی اللہ کا اجر نہیں ہوگا۔ اس لئے کہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔

تبصرہ کریں